شکریہ جدوجہد !
یومِ مئی ان مزدور شہدا کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہیں 1886ءمیں امریکی شہر شکاگو کی ’ہے مارکیٹ‘ میں پولیس فائرنگ سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ مزدور اپنے اس مطالبے کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے کہ انکے اوقاتِ کار آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔
اس واقعے کے الزام میں سات انارکسٹ انقلابیوں کو بھی پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ ہے مارکیٹ میں جو پولیس نے گولی چلائی اس کے لئے پولیس کو ان سات انارکسٹوں نے اکسایا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکاری طور پر امریکہ میں یومِ مئی نہیں منایا جاتا نہ ہی وہاں چھٹی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہاں اس دن کو منانا سرمائے کے خلاف محنت کی ایک علامتی جیت سمجھی جائے گی۔ باقی دنیا میں بہرحال یہ دن جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور پاکستان سمیت بہت سے ملکوں میں اس دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔
لیکن پاکستان میں محنت کشوں کےساتھ کئی ایسے واقعات ہو چکے ہیں جو شکاگو سے بھی کہیں زیادہ خونی اور وحشیانہ تھے۔ ذیل میں ایسے ہی ایک واقعے کی تفصیل پیش خدمت ہے۔
2 جنوری 1978ءکو کالونی ٹیکسٹائل ملز کے پرُامن ہڑتالی مزدوروں پر پولیس نے اندھادھند گولی چلا دی۔کتنے مزدور شہید ہوئے؟ آج تک پتا نہیں چل سکا۔ سرکاری موقف کے مطابق چودہ۔ مزدور تنظیموں کے مطابق 133۔ پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کا یہ بد ترین دن تھا۔
یہ قتل عام بنیاد پرست ضیا آمریت کا پاکستانی محنت کشوں کے لئے ایک پیغام تھا۔ مزدوروں نے سوشلسٹ نظریات اپنا لیے تھے۔ کالونی ٹیکسٹائل ملز کا واقعہ اقتدار پر قبضے کے ایک سال بعد ضیا آمریت کی طرف سے دی جانے والی پہلی خونی وارننگ تھی۔
جب 1977ءمیں بھٹو حکومت کا تختہ الٹا گیا تو سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کو درست طور پر توقع تھی کہ ضیا الحق کی آمریت بھٹو دور کی (بری بھلی جیسی بھی) زرعی اصلاحات اور نیشنلائزیشن کا خاتمہ کر دے گی۔ ان لوگوں نے بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک کی حمایت کی تھی۔ ضیا آمریت بھی اِس احسان کا بدلہ چکانا چاہتی تھی۔
دریں اثنا کالونی ٹیکسٹائل ملز کے 1300 مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ جب سے بھٹو حکومت ختم ہوئی تھی ان کو نہ تو بونس ملا تھا نہ ہی دیگر مراعات جو ان کا حق تھیں۔ حالانکہ مل کے منافعے میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ مزدور یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ سیاسی تبدیلی کے بعد مالکان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے۔
کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مالک شیخ مغیث کے جنرل ضیا سے اچھے مراسم تھے۔ دونوں کے درمیان یہ مراسم اس وقت بنے تھے جب جنرل ضیا ملتان میں کور کمانڈر تھا۔ شاید اسی دوستی کے زعم میں مل مالک کا رویہ مزدوروں کی جانب انتہائی متکبرانہ تھا۔
29 دسمبر 1977ءکو مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ انتظامیہ نے مزدور نمائندوں کو مذاکرات کےلئے بلایا۔ مزدوروں کی نمائندگی پیپلز لیبر یونین کر رہی تھی جس کے پاس سی بی اے سٹیٹس تھا۔ یعنی وہ یونین کا انتخاب جیت کر آئی تھی اور انتظامیہ سے قانونی طور پر مذاکرات کر سکتی تھی۔ 2 جنوری کو ہونے والے مذاکرات میں مل کی انتظامیہ، مارشل لا انتظامیہ، لیبر ڈیپارٹمنٹ اور یونین کے رہنماﺅں نے حصہ لیا۔ مذاکرات میں مزدوروں کی سب باتیں مان لی گئیں ۔ صرف ایک بات پر اختلاف تھا۔ مالکوں کا کہنا تھا کہ ہڑتال غیر قانونی ہے لہٰذا ہڑتال کے دوران جو دن ضائع ہوئے ان کی تنخواہ نہیں دی جائے گی۔ یونین نے درست طور پر یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ اگر یونین ہڑتال کا غیر قانونی ہونا مان لیتی تو اپنے پاﺅں پر کلہاڑا مارتی۔
ابھی مذاکرات چل رہے تھے کہ مزدور مل میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔ مل میں پہلے سے پولیس موجود تھی۔ پولیس نے مزدوروں کو تتر بتر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کر دیا۔ مزدور خوفزدہ ہو کر بھاگنے کی بجائے ڈٹ گئے۔ اکثر مزدور مل کے اندر رہائشی کالونی میں رہتے تھے۔ جب ان کے گھر والوں کو پتا چلا تو وہ بھی میدان میں آ گئے۔ جب مجمع بڑا ہو گیا تو پولیس نے گولی چلا دی۔
سرکاری اعلان کے مطابق چودہ مزدور مارے گئے۔ پیپلز پارٹی کے نمائندہ اخبار مساوات کے مطابق بائیس مزدور جان سے گئے۔ اس واقعے کے بعد بننے والی ورکرز ایکشن کمیٹی کے مطابق 133 مزدور شہید ہوئے۔
اس بد ترین ظلم کے خلاف ملک بھر میں ٹریڈ یونینز نے نو اور دس جنوری کو احتجاج کیا۔ حکومت نے ایک ایس ایچ او خضر حیات اور ایک کانسٹیبل حاکم علی کو معطل کر دیا۔حالانکہ اتنا بڑا اقدام یہ نچلے اہلکار اپنی مرضی سے نہیں کر سکتے تھے۔ ایک برگیڈئیر صاحب کی قیادت میں تفتیشی کمیٹی بنا ئی گئی اور مطالعہ پاکستان کی برکت سے پاکستانی عوام کی اجتماعی یاداشت سے اس نقش کو مٹا دیا گیا!